-->

About





الحمدللہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین امابعد !
ہندوستان کی دھرتی پر آٹھ سوسال سے زیادہ اسلامی پرچم لہرانے والی مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد برٹش حکومت کے تسلط واقتدار قائم ہونے پر ، دینی تعلیم وتربیت اور اجتماعی حیات ملّی کا شیرازہ جس طرح منتشر ہوا وہ ناقابل بیان ہے دشمنان اسلام وملحدان زمانہ نے اسلامی تعلیم وتہذیب اور مسلمانوں کے مذہبی تشخص پر نت نئے طریقوں سے حملے کرکے ان کی جڑوں کو کاٹ دیا ۔ بچوں اور نوجوانوں کے فکر واعتقاد پر ڈاکہ زنی کی گئی اور انہیں مسیحیت ومغربیت کے رنگ میں رنگ دینے کے اپنے جامع اور عملی منصوبہ پر عمل شروع کردیا جو یقیناًامت مسلمہ کے لئے خطرہ کی گھنٹی تھی۔
اس ظلمت آگیں، ہلاکت خیز اور پر آشوب دور کا احساس جب علماء دین بزرگان کاملین اور دانشوران صالحین کو ہوا تو انہوں نے مسلمانوں کے دین وایمان کی حفاظت ، فکر واعتقاد کی صیانت، اعلاء کلمۃ اللہ اور اسلامی تعلیم کو عام کرنے کے لئے پورے ہندوستان میں مدارس ومکاتب کا جال پھیلادیا ۔ ہزاروں کی تعداد میں دینی ادارے قائم ہوئے اور علم وعمل کی تربیت گاہیں وجود میں آئیں ۔
ان علماء ربانین کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ مدارس دینیہ واسلامیہ ہی کے ذریعہ سے اسلامی اقدار باقی رہ سکتی ہیں اس کے بغیر ایک سچا مسلمان اور صاحب کردار انسان نہیں بنایا جاسکتاہے ۔ کیونکہ مدارس کا ہی وہ واحد مثالی کردار ہے جس نے ساری دنیا کو انسانیت کا پیغام دیا ، ہدایت کا درس دیا ، اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر دوسروں کے پیٹ بھرنے کا پیغام دیا اور زبان رسالت سے’’ اللہم لا عیش الا عیش الآخرۃ‘‘ کہلواکر زندگی کا صحیح تصور پیش کیا ۔ قرآن پڑھنے اور پڑھانے والے جن کے خیریّت کی بشارت آقاء مدنی e نے دی ’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ (حدیث)۔ان لوگوں کا امت کا بہترین طبقہ قرار دیا جو قرآن کریم پڑھتے یا پڑھاتے ہیں۔ یا کسی بھی طرح سے قرآن مجید کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
ایسے حضرات کو علماء کرام اور طالب علم دین کہا جاتاہے۔ عالم اسلام کے یہ ایسے مخصوص حضرات ہیں جن کی فضیلت دینی علمی، سماجی، سیاسی اور عملی اعتبار سے مسلّم ہے۔
دنیاکے ہر خطّے اور ہر ملک میں ایسے اداے مدارس دینیہ اور دارالعلوم قائم ہیں جو قرآن و حدیث کی ترویج و اشاعت کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہیں اور امّت محمدیہ کے ہر فرد وبشر کو علوم قرآنیہ و احادیث نبویّہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعمت سے سرفراز فرما رہے ہیں۔ 
بحمد اللہ تعالیٰ جنوبی ہند کے شہر گلستاں بنگلور میں ’’دارالعلوم محمدیہ ‘‘ کا قیام اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ جانب مغرب شہر میں واقع گنگونڈناہلّی لائر پالیہ ،نائنڈہلی کے اس علاقہ میں (جہاں ۹۰؍فیصد غریب مزدور مسلمان بستے تھے )آمد ورفت کے لئے نہ کوئی سڑک وسواری کی سہولت اور نہ ہی صفائی وستھرائی کا کوئی انتظام تھا ہر طرف گندگیوں کے ڈھیر، گندے پانی کا جمگھٹا تھا ، لوگ تعلیم وتہذیب اور اقتصادی اعتبار سے نہایت پسماندہ تھے ، دینی تعلیم کے لئے اس پورے علاقے میں کوئی مدرسہ نہ تھا ۔ دینی تعلیمات اور علوم اسلامیہ سے تہی دامن مسلمان بدعات وخرافات اور غلط رسومات کے دائرے میں محصور تھے۔ جو ہر انسانیت کا پھول شگفتہ ہونے کے بجائے پژمردہ ہوگیا تھا۔دینی حمیت وغیرت اور جذبۂ خلق سے سرشار ،عالم دین وفاضل دیوبند صاحب نسبت حضرت حبیب الامت مولاناحکیم ڈاکٹر محمد ادریس حبان رحیمی عمت فیوضہم خلیفہ و مجاز حاذق الامت عارف باللہ حضرت مولانا حکیم زکی الدین احمد صاحبؒ نے جب اس صورتحال کو دیکھا تو تڑپ اٹھے اور اس علاقے کی تہی دامنی کو تعلیمات اسلامیہ کے فیضان سے بھر نے اورفکر ولی اللہی کے تحت نئی نسل کو دینی علوم سے آراستہ کرنے کیلئے چند رفقائے کار کے باہم مشورہ سے بتاریخ ۱۶؍ اکتوبر۱۹۸۹ء ؁ کو دارالعلوم محمدیہ کی بنیاد ڈالی ۔
محلہ کے چند غریب اور میلے کچیلے بچوں کو بلا کر باضابطہ تعلیم کا آغاز کردیا کون جانتا تھا کہ ’’منزل خداداد‘‘ کے کرایہ کے چند کمروں میں چلنے والا یہ چھوٹا سا مکتب ایک دن علاقہ کا قد آور ادارہ بن جائے گا جہاں سے علوم قرآنییہ واحادیث مبارکہ کے چشمے پھوٹیں گے اور دور دراز کی دوسری ریاستوں سے طالبان علوم نبوت آکر اپنی علمی تشنگی بجھائیں گے ۔ 
ادارہ کا تعلیمی نظام بحسن وخوبی چلتا رہا ۔ اسلامی حرارتوں سے سرد پڑا یہ علاقہ علوم نبویہ سے آباد ہونے لگا ۔ اس درمیان ادارہ کی افادیت کو دیکھتے ہوئے شہر کے مقامی افراد بھی اس عظیم علمی تحریک میں شامل ہونے لگے اور بمصداق ؂

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر 
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتاگیا
چاروں طرف سے نصرتیں آتی گئیں جس میں شہر کے مخیر احباب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جناب الحاج عبدالباسط صاحب نوراللہ مرقدہ (سابق صدر دارالعلوم محمدیہ ) وعالی جناب انور سادات صاحب مرحوم ( سابق جنرل سکریٹری دارالعلوم محمدیہ) نے ادارہ کی آبیاری میں ہر ممکنہ تعاون دیا ۔ ان حضرات کی توجہات اورتمام اراکین دارلعلوم محمدیہ کی کاوشوں کے نتیجے میں دارالعلوم محمدیہ نے تعلیمی وتعمیری ہر اعتبار سے ترقی کے منازل طے کئے ادارہ کرایہ کے مکان سے نکل کر اپنی ذاتی آراضی میں آیا ۔بحمد اللہ تعالیٰ اب ادارہ کے پاس اپنی شاندار عمارت ہے جہاں طلباء قیام کرتے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں ، مرکزی جامع مسجددارالعلوم محمدیہ بھی قدیم عمارت کے بجائے نئی عمارت کے ساتھ وجود میں آچکی ہے علاقہ کی خوبصورت 3 منزلہ عمارت بفضلِ ایزدی مکمل ہوگئی ہیں فللہ الحمدوالشکر، جہاں طلبہ اور محلہ کے لوگ نماز پنج گانہ اداکرتے ہیں ۔ مدرسہ کا تعلیمی وتدریسی نظام باضابطہ طورپر ’’محمدیہ ایجوکیشنل چاریٹیبل ٹرسٹ رجسٹرڈ‘‘ کے تحت چل رہا ہے ۔
خانقاہی نظام بھی دارالعلوم محمدیہ میں قائم ہے جس سے ہزاروں تشنگانِ علوم معرفت سیراب ہو رہے ہیں۔ہندوستان کے تقریباً ہر شہر اور ہر علاقہ سے طالبین حضرات دارالعلوم محمدیہ پہونچتے ہیں اور اصلاحی تعلق قائم کرتے ہیں۔ ہر جمعہ کی نماز کے بعد مجلس کا انعقاد ہوتا ہے جس میں بنگلور اور بیرون شہر سے کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ دارالعلوم محمدیہ کی علمی و عملی اور معنوی ترقیات میں جہاں بانیان دارالعلوم محمدیہ اور جملہ اراکین حضرات کی کاوشوں کو دخل ہے وہیں مخیر احباب کرام کے تعاون اور مفید مشوروں اور رہنمائی نے بھی ادارہ کو بام عروج عطا کیا ہے۔ 26سال سے ادارہ مسلسل ترقی کی جانب گامزن ہے، امسال بھی دستار بندی کا اجلاس اسی کا مظہر ہے۔ ادارہ اپنے جملہ معاونین کرام کا ممنون مشکور ہے کہ انہوں نے اپنی دینی حمیت اور جذبہ سے سرشار ہوکر دارالعلوم محمدیہ کی آبیاری میں حصہ لیا۔ جزاک اللہ خیرا فی الدارین۔