-->

Trust

اراکین محمدیہ ایجوکیشنل چاریٹیبل ٹرسٹ رجسٹرڈبنگلور

سنِ تاسیس : 20 اکتوبر 1989

بحمد اللہ تعالیٰ حبیب الامت حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی مدظلہ العالی بانی ومہتمم دارالعلوم محمدیہ انتہائی بااصول، محنتی، مخلص اور سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ نے ابتداء سے ہی دارالعلوم محمدیہ گنگونڈناہلی بنگلور کی کل انتظامیہ کو ذاتی اور شخصی نہ رہنے دیا، بلکہ ’’محمدیہ ایجوکیشنل چاری ٹیبل ٹرسٹ‘‘ نامی شوریٰ باقاعدہ حکومت سے رجسٹرڈ کراکر اس میں ایسے تعلیم یافتہ اور مخلص افراد کو شامل فرمایا جنہوں نے اپنی تجارت ومنفعت سے بالاتر ہوکر ہمیشہ دارالعلوم محمدیہ کی کامیابی اور ترقی کے لئے جدوجہد کی۔ اراکین ٹرسٹ کی تفصیل نیز مختصر تعارف درجِ ذیل ہے۔ 



تعارف اراکین محمدیہ ایجوکیشنل چاریٹبل ٹرسٹ (رجسٹرڈ)

حبیب الامت حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی مدظلہ العالی

حبیب الامت ،پیر طریقت، محبوب العلماء ، رئیس الحکماء، تاج الاطباء ،ماہرالانباض ، حاذق الادویات ،معبر دوراں عالمی شہرت یافتہ حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی صاحب عمت فیوضہم جن کی ہمہ جہت ، گوناگوں شخصیت کا تذکرہ میں کرنے جارہا ہوں یہ اپنے وقت کے شیخ کامل، حکیم زمانہ ، طبیب ملت ہی نہیں بلکہ وقت و حالات سے باخبر دوربیں ، دور اندیش شخصیت کا نام ہے جن کی خدمات چہار سو پھیلی ہوئی ہیں۔ آپ نے دینی، تعلیمی، طبی،قومی و ملی، سیاسی،ادبی و ثقافتی ہر سطح پر اپنے کارناموں کے ذریعہ ایک مشعل روشن کردی ہے۔ جس کی کرنیں قومی و بین الاقوامی سطح پرمسلسل پھیل رہی ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کی خدمت کو قبول فرمائے اور اسکا دائرہ مزیدوسیع تر ہوتا چلا جائے۔آمین

آپ کی پیدائش ہندوستان کے مشہور مردم خیزضلع مظفر نگر کے قصبہ چرتھاول میں جناب الحاج حضرت منشی محمد عمران صاحب کے یہاں20؍ اپریل 1958 میں ہوئی۔

آپ کا گھرانہ شروع سے ہی دین داری کے اعتبار سے معروف ہے۔ خاندانی شرافت و وجاہت ،وضع داری میں آج بھی مشہور و معروف ہے۔ آپ کے دادا حضرت شیخ سلیمان صاحب انصاری علیہ الرحمہ جو اپنے علاقہ اور بستی میں ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے نوجوانی میں آپ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے مجلس میں شریک ہوا کرتے تھے۔ دادا سلیمانؒ گھر کے سامنے والی مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا کرتے تھے یہ چرتھاول کی سب سے قدیم مسجد ہے جس کو شاہ محمد تغلق نے تعمیر کرایا تھا اس کو قدیم زمانہ میں بھونرے والی مسجد کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کیوں کہ اس میں بادشاہ نے ایک تہہ خانہ بھی بنوایا تھا۔ بادشاہ یا حکومت کے عہدیدار دورانِ سفر یہاں قیام کیا کرتے تھے۔ برٹش حکومت کے دور میں عام مسلمانوں نے اس تہہ خانہ کو مٹی سے پاٹ کر بند کردیا تھا۔ جس کی اب جدید تعمیر حکیم صاحب کے والد محترم الحاج محمد عمران صاحب کی زیر نگرانی مکمل ہوئی ہے۔ اس کا نیا نام مسجد عثمان غنی رکھدیا گیا ہے لیکن آج بھی بھونرے والی مسجد کے نام سے معروف ہے۔دادا محمد سلیمان شیخ انصاری کو اپنے والد سے تواضع، انکساری ورثہ میں ملی تھی ۔ وہ سادہ طبیعت کے مالک ، صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ سے زیادہ عقیدت ، محبت رکھتے تھے۔ اسی لئے سال بھر میں ایک مرتبہ جماعت میں وقت لگانا ضروری سمجھتے تھے۔

دوسری مسجد جانبِ مغرب ہے جس کو جامع مسجد تگایان کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کو سترہویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہ نادر شاہ نے تعمیر کرایا تھا۔ جو تعمیری اعتبار سے ایک شاہ کار مسجد تصور کی جاتی ہے اسی کے احاطہ میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ اور شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کی یاد میں مدرسہ اشرفیہ کاشف العلوم قائم کیا گیا تھا جس کے پہلے مہتمم حضرت حافظ جمیل احمدؒ مجاز حضرت مسیح الامتؒ تھے دوسرے مہتمم حضرت مولانا رفیق احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم رہے، پیرانہ سالی اور علالت کے باعث آپ نے اپنی تمام تر ذمہ داری حضرت مولانا محمد قاسم صاحب قاسمی مدظلہ کے سپرد کردی، یہ ادارہ چرتھاول کا قدیم ادارہ ہے، یہاں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ، شیخ الادب مولانا اعجاز علی صاحبؒ ، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ ، مولانا اسعد مدنیؒ اور دیگر اکابرین دارالعلوم دیوبند نے اپنی تشریف آوری سے رونق بخشی۔

 مشہور ابتدائی کتابوں کے مصنف حضرت مولانا مشتاق احمد صاحبؒ چرتھاؤلی سے بھی اہل علم بخوبی واقف ہیں۔ اسی طرح اٹھارہویں صدی کی ابتداء میں سرزمین چرتھاول کے ایک عظیم صوفی اور اسکالر (scolor) مولانا حکیم محمد عمرؒ تھے جو حضرت میانجی نورمحمد جھنجانویؒ کے خلیفہ تھے۔ حکیم محمد عمر صاحبؒ نے فارسی شاعری میں کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں ایک کتاب کا نام نوروس ہے، جس کو 1902 میں ان کے صاحبزادے حکیم صدر الدین صاحب نے شائع کیا تھا۔ غرض سرزمین چرتھاول ایک زر خیز اور مردم خیز خطہ ہے۔ چرتھاول اپنی خاص روایات اور تہذیب کے اعتبار کی وجہ سے معروف و مشہور ہے۔

چرتھاول کا ہندوستان کی تاریخ میں بڑا اہم رول رہا ہے تاریخ کے مطابق یہ تین ہزار سال قدیم بستی ہے۔

 حکیم صاحب نے ایسی سرزمین میں آنکھیں کھولی جہاں کے خمیرو ضمیر میں علم و حکمت ، تصنیف و تالیف، طریقت و سلوک پہلے ہی سے موجود تھا ظاہر ہے وہاں ایسے جیالے ہی جنم لیں گے ۔
ایسے علمی ودینی ماحول اور مردم خیز سرزمین میں پیدا ہونے والے سپوت میں اکابر واسلاف اور علمائے عظام کا علم وعمل اور رونق ووجاہت آنا فطری تھا، یہی وجہ رہی کہ صرف انیس سال کی عمر میں حبیب الامت حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی مدظلہ العالی کو پیر کامل قلندرِ زماں حضرت حافظ مصطفی کامل رشیدی اعرابی رحمۃ اللہ علیہ (نبیرہ حضرت گنگوہیؒ وخلیفہ ومجاز حضرت شیخ الاسلام صاحب) نے دو سلسلوں ایک حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرا حضرت شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت وخلافت عطا فرمائی، بعدہٗ تعلیمی فراغت کے بعد بھی آپ اکابر ومشائخ کی جوتیاں سیدھی کرنا سعادت تصور فرماتے رہے، ان دو سلسلوں سے اجازت کے بعد بھی آپ اپنے آپ کو اس کا اہل تصور نہ فرماتے، بالآخر تیسری خلافت واجازت حضرت مولانا الشاہ حکیم زکی الدین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ (خلیفہ ومجاز حضرت مسیح الامت مسیح اللہ خان صاحب) نے عطا فرمائی، اور پھر چوتھی اجازت وخلافت حضرت مولانا حافظ جمیل احمد صاحب دامت برکاتہم (خلیفہ ومجاز حضرت حافظ عبد الستار صاحب رحمۃ اللہ علیہ) نے عطا فرمائی۔ آپ کو چاروں سلسلوں یعنی نقشبندیہ، قادریہ، سہروردیہ اور چشتیہ میں خلافت واجازت حاصل ہے۔

ان میں حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی حفظہ اللہ کا نام بھی شامل ہے۔

حضرت حکیم صاحب کی ابتدائی تعلیم قرآن کریم حفظ کی تکمیل اپنے وطن چرتھاول میں ہوئی ۔اور خادم العلوم باغوں والی میں ابتدائی عربی درجات کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ شریف میں آپ نے تعلیم حاصل کی تجوید و قرأت اور عربی درجات کے اساتذہ میں آپ کے معروف اساتذۂ کرام میں حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحبؒ سابق ناظم جامعہ اور حضرت مولا نا شیخ وسیم احمد صاحب حفظہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی کا نامِ نامی بھی ہے جن سے حکیم صاحب نے شرف تلمذ حاصل کیا۔جن کی علمی دینی شخصیت کے قائل بڑے بڑے اساطین علم رہے ہیں۔
 آپ کے طب و حکمت کے اساتذہ میں ہندوستان کے مایہ نازطبیب اور عالم حکیم عبد الرشید محمود انصاری عرف حکیم ننھوں میاں گنگوہی (نبیرہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی شاگرد خاص حضرت مولانا حکیم عبد الوہاب صاحب نابینہ انصاری دہلویؒ ، مجاز حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ )قابلِ ذکر ہیں جن کی علمی فکری و روحانی شخصیت کا بڑے بڑے علماء کو اعتراف ہے۔اسی کے ساتھ حضرت الحاج مولانا مصطفی کامل رشید یؒ اعرابی المعروف اجّان صاحب خلیفہ و مجاز حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ جو ایک قلند رانہ صفات بزرگ تھے ان کے تربیت یافتہ ہیں۔آٹھ سال تک آپ نے بارہ اقطاب کی خانقاہ رشیدیہ گنگوہ میں ان کی صحبت و تربیت میں گزارے خانقاہ قدوسیہ رشیدیہ میں رہتے ہوئے حضرت اجّان صاحبؒ کی عدم موجودگی میں حکیم صاحب ہی امامت کے فرائض انجام دیتے یہ وہ مسجد ہے جس کو سب سے پہلے حضرت شیخ عبد القدوس قطبِ عالمؒ نے اور بعد میں اس کی جدید تعمیر امام ربانی قطب الارشادؒ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے کرائی تھی۔اسی کے ساتھ آپ کی شخصیت کو نکھارنے اور بنانے میں جس ہستی کا اہم رول رہا ہے وہ ہیں عارف باللہ حاذق الامت حکیم زماں حضرت مولانا حکیم زکی الدین صاحب پرنامبٹی ؒ خلیفہ ومجاز حضرت مسیح الامت جلال آبادیؒ جو آپ کے پیر و مرشد ہیں جن کی نظر التفات اور دعائے سحرگاہی نے آپ کو کندن بنادیا۔ 

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہے زنجیریں

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام جن کو ہرمس(HURMUS) یا الہرامسہ(AL HARAMSAH) کہاجاتا ہے طب کے بانی تھے۔اہل تحقیق اپنی تحقیقات کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حکمت اس نبوت کا دوسرا نام ہے جو حضرت ادریس علیہ السلام کو دی گئی تھی۔آپ کو مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا تھا مثلاً یونانی آپ کو اریس (ARIS)کہا کرتے تھے۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکیم صاحب کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ آپ کا نام اس برگزیدہ نبی کے نام سے موسوم ہے جو اس علم طب کا بانی ہے حدیث پاک میں آیا ہے کہ نام کا اثر انسانی زندگی پر اس طرح پرتا ہے جیسا سورج کی دھوپ کا اثر زمین پر پڑتا ہے اسی لئے آپ اسم با مسمٰی ہیں بہر حال اس بات سے اہل علم ضرور اتفاق کریں گے کہ ہر نام کااثر ضرور پڑتا ہے۔حضرت لقمان حکیمؑ کے تعلق سے بعض علماء بالخصوص حضرت مولانا حکیم عبد الرشید محمود نبیرہ حضرت گنگوہی کے بقول کہ حضرت لقمان حکماء کے نبی تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو علم و حکمت اور دانائی سے نوازا تھا۔
 حکیم صاحب عصر حاضر کے ایک ایسے ماہر طبیب و حکیم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں جن کا شہرہ ہندوپاک و عرب ، افریقہ و امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے تقریباً چالیس ممالک تک پہونچ چکا ہے۔ آپ کاایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے قدیم فن طب کو نئے قالب میں پیش کرنا، جڑی بوٹیوں کو ٹیبلٹ (TABLETS) اور کیپسول(CAPSULES) کی شکل میں متعارف کرانا۔ طبابت کاپیشہ جو انبیاء علیہم السلام اور علمائے کرام سے چلا آرہا ہے آپ اس کے سچے امین و معین ہیں۔آپ کی دن رات کی مسلسل ۷۳ سالہ فن طب کی محنت نے آپ کو بام عروج تک پہونچادیا۔جنوبی ہند میں حکمت و طبابت کی گرتی ہوئی حالت کو آپ نے نئے سرے سے زندگی بخشی۔جدید فن طب و حکمت کے آپ شہسوار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہو ئے ریاستِ کرناٹک کے گورنر عزت مآب شری بھاردواج جی نے آپ کی خدمت میں مومنٹو(MOMENTO) پیش کرکے آپ کی طبی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔اسی طرح بہت سے معروف اداروں نے بھی آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف ایوارڈ س سے نوازا ہے۔
 آپ نے علم طب کے حصول کے لئے ہر قسم کی تکلیفیں و صعوبتیں برداشت کیں دورو دراز کے مقامات کا طویل سفر بھی کیا۔بیرون ملکوں خصوصاً ساؤتھ افریقہ کے شہروں اور دیہاتوں کا بھی آپ نے دورہ کیا وہاں کے قدیم زمانہ سے رائج طریقہ علاج و ادویات اور نام ،مقام پیدائش، رنگ و بو ، شکل و صورت ، مزاج اور افادیت کا پتہ لگانے کے لئے بے حد جدو جہد کی۔
ایک اچھے طبیب کی جو صفات ہیں ان میں خوش اخلاقی ، مریضوں سے نہایت خوش گوار لہجے میں گفتگو کرنااور تسلی دینا بھی مریض کی صحت اور تندرستی کے لئے ایک اہم کرداراداکرتا ہے۔ اس لئے کہ طبیب کی خوش کلامی ونرمی، انکساری و عاجزی اور دل کو موہ لینے ولا اندازِ بیان ایسے اوصاف حمیدہ ہیں جو مریض کو مطمئن اور گرویدہ بنادیتے ہیں اور مریض با اخلاق و نیک کردار طبیب کا معتقد ہوجاتا ہے اس اطمینان اور عقیدے سے مریض پر نفسیاتی طور پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اور مریض اپنے کو مطمئن پاتا ہے۔ طبیب کو ہر حال میں ہر لحاظ سے معتدل المزاج ہونا چاہئے ۔کیونکہ ایک اچھے طبیب کے لئے ضروری ہے کہ وہ رفیق الخلق، حکیم النفس اور جید الحدس ہو اوراس قابل ہو کہ ہر ایک کو اپنی جودتِ حس اور اپنے صحیح طرز تشخیص سے فائدہ پہنچاسکے۔الحمد للہ یہ ساری صفات بڑے حکیم صاحب میں بدرجہء اتم پائی جاتی ہیں۔
تکمیلِ بشر ہے عجز بندگی کا احساس
انسان کا معراج ہے انسا ں ہونا

اختراعی کیفیت کے مالک حکیم صاحب نے اس تصور کو سرے سے ختم کردیا کہ یونانی طریقہ علاج صرف امراض جنسیات تک محدود ہے۔ آج تک ایک بڑا طبقہ یہی جانتا تھا کہ طب یونانی میں صرف پوشیدہ امراض کا ہی علاج کیا جاتا ہے جب کہ حکیم صاحب نے ٹیومرس(TUMOURS) (غدود) کینسر (CANCER) ، اور کڈنی فیلر(KIDNY FAILURE) جیسے موذی امراض اور خصوصاً عوارضات قلوب(ہارٹ) کا بھی علاج کرکے یہ ثابت کردیا کہ اصل دوائیں تو یہی جڑی بوٹیاں ہیں جن سے دوسری ادویات بنتی ہیں۔اور شفاء دینے والی ذات تو صرف اللہ رب العزت کی ہے۔
 حکیم صاحب نے دواؤں کی پیکنگ کو بھی خوبصورت انداز بخشا ہے۔ جس سے دیسی دواؤں کو ایک نیا لُک (NEW LOOK)، گیٹ اَپ (GATE UP) ملا، قدیم اور رسمی پیکنگ(PAIKING) کا چلن ختم کیا اگرچہ ملک کے دوسرے اطباء بھی اس کی طرف توجہ درہے ہیں۔حکیم صاحب نے تمام امراض کے علاج کو صرف اپنے دائرۂ کار کو مخصوص بیماریوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہر قسم کی بیماریوں اور امراض کے متعلق آپ نے ہندوستان کے مختلف اردو اخبارات میں مستقل کالم(COULAM) لکھ کر اسباب مرض و علاج و معالجہ اور دواؤں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی اور آج بھی بہت سارے مریضوں کی رہنمائی کررہے ہیں۔آپ کے اس کالم کی مقبولیت کا یہ حا ل ہے کہ کئی یونیورسٹیوں میں آپ کے اس کالم کو طلباء و اساتذہ بڑے غور سے پڑھتے ہیں اور اس پر مذاکرہ بھی کرتے ہیں۔اکثر یونانی، آریویدک کالجسس کے طلباء خود حکیم صاحب سے اپنے سوالات کا استفسار کرتے ہیں، آپ کے طبّی مضامین خواص و عوام کیلئے یکساں طور پر مفید اور کار آمد ہوتے ہیں، آسان اور سہل الفاظوں کے پیراہن میں آپ طبّی مسائل کو حل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
حکیم صاحب کی طب و حکمت کے علاوہ دوسری بڑی خدمت طریقت، تصوف کے روحانی مدار میں ہے۔ تصوف دین کا وہ جز ہے جہاں روحانیت وحقانیت سے بشرکو اپنے وجود کا اصل مقصد ہاتھ آتا ہے۔ صدق وصفا، صبر واستقلال، زہدو تقویٰ، ذکر وفکر، امید وخوف اورراز ونیاز کے ذریعے آدم خاکی کو علم و عرفان کا فیض حاصل ہوتا ہے۔ تصوف کا تعلق تزکیہ نفس یعنی دل کی پاکی، نفاست ،نزافت ولطافت سے ہے۔ حسن آئینہ حق ہے اور دل آئینہ حسن ہے۔ جب دل صاف ہو تو قدرت کی تجلی اس میں چمک اٹھتی ہے۔ تصوف روحانی تعلیم کی اس منزل کو کہتے ہیں جہاں حقیقت کے اسرار اور رموز منکشف ہوتے ہیں جہاں معرفت کے دریا میں عارف غوطہ زن ہوتا ہے۔ صحیفۂ پاک میں بھی آیا ہے کہ متقیوں کا فوز عظیم قربت الٰہی ہے۔
حکیم صاحب نے تصوف و طریقت کے رازہائے سربستہ کو جاننے کے لئے اہل اللہ کی جوتیاں سیدھی کی ہیں اور اپنے آپ کو راہ طریقت و سلوک ، تصوف و تزکیہ پر چلایا۔آپ جہاں جسمانی مریضوں کا علاج و معالجہ کرتے ہیں وہیں مسند رشد وہدایت سے مریضوں کی بھی رہنمائی کرتے ہیں۔اور یہ کیوں نہ ہو آپ کی نسبت ہی ایسی شخصیتوں سے ہے جو اپنے وقت کے طبیبِ جسمانی کے ساتھ ساتھ طبیب روحانی بھی رہے ہیں۔
 موجودہ دور میں صف اوّل کے صوفیائے کرام میں حضرت حکیم صاحب کا نام نامی شمار کیا جاتا ہے۔ علم وعرفان کی دنیا میں آپ نے بہت بلند مقام پایا ہے۔ اپنے وقت کے محبوب ومقبول بزرگوں کے تربیت یافتہ ہیں۔ درس وتدریس، تالیف وتصنیف، پندونصائح، مجاہدہ وریاضت میں آپ یکتائے روزگار ہیں۔شریعت، طریقت، ادب، اخلاق، تصوف کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔آپ کی تصنیف کردہ کتاب قرآن و حدیث کی روشنی میں تصوف کی حقیقت اور انوار السالکین انوار طریقت ملفوظاتِ حبیب الامت اپنے موضوع پر اہم کتابیں تسلیم کی جاتی ہیں۔
 آپ ایک مصلح و مربی کی حیثیت سے خانقاہ رحیمی بنگلور میں بھی مخلوق خدا کو فائدہ پہونچارہے ہیں۔آپ کی خانقاہ رحیمی میں خوداحقر کو حاضری کا کئی بار اتفاق ہوا ہے بحمد اللہ تعالیٰ وہاں کا ماحول نورانی ا و رصمدانی ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ میں اور میرے ساتھی مولانا نثار احمد قاسمی صاحب کی حاضری ہوئی وہاں کی پرنور مجلس کا ہم دونوں پر اس قدر اثر رہا کہ آئندہ ارادہ کر لیا کہ ان شاء اللہ جب بھی موقع ملا ضرور حاضری ہوتی رہے گی۔
آپ سنجیدگی و متانت کے پیکر،اخلاص و للہیت سے معمور، حسن سیرت اور حسن صورت دونوں صفات سے متصف ہیں فللّہ والحمد والشکر۔چھوٹوں پر شفقت و رحمت اور ان کی حوصلہ افزائی کی صفت میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے:

کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتناہی وہ خاموش ہے

 کرناٹک کی سرزمین پر 37سال قبل آپ نے جس وقت قدم رکھا یہاں کے حالات آج سے بالکل مختلف تھے۔ مدارس اور دینی تعلیمی اداروں کی از حد کمی تھی اسی لئے بدعات،خرافات، تاریکی و گمراہی اپنا مسکن بنائے ہوئے تھی۔اوہام پرستی کا عام چلن تھا، حضرت مولاناڈاکٹر حکیم ادریس حبان رحیمی بھی ایک درد دل اور جذبۂ ایثار و قربانی لے کرآئے تھے، آپ نے دیکھا کہ یہاں کے بھولے بھالے ان پڑھ اور دین سے نابلد مسلمان جاہل صوفیوں اور مندر کے پجاریوں کے پاس جاتے ہیں ان سے تعویذ اور دعا کے ساتھ ٹوٹکے کراتے ہیں اور اپنے خوابوں کی تعبیر لے تے ہیں۔ ایسے وقت میں آپ کا ایمانی جذبہ کام آیا تو آپ نے خوابوں کی تعبیر اور اُن کی حقیقت  نامی کتاب تالیف کرکے امت مسلمہ کے لئے صحیح تعبیرات حاصل کرنے کے لئے رہنمائی کی۔یہ کتاب اپنی ترتیب و تالیف کے اعتبار سے بڑی مقبول ہے ۔بلاشبہ امام المعبرین حضرت علامہ محمد ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب تعبیرالرأیا کو خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔لیکن آج کے اس سائنسی اور ٹیکنا لوجی اور پرنٹ میڈیا کے دور میں آپ نے تعبیرات کو جدید ایجادات اور انقلابات زمانہ کی حیثیت سے نرالے اور اچھوت انداز میں پیش کر کے زمانۂ جدید کے تقاضوں کے مطابق معبرانہ حق ادا کیا ہے۔ جس کی دو جلد یں ہندوپاک سے شائع ہوچکی ہیں اور تیسری جلد عنقریب منظر عام پر آنے الی ہے۔
آپ نے علمی تشنگی کو دور کرنے کے لئے جامعہ دارالعلوم محمدیہ قائم فرمایا۔عوام کے اندر دینی جذبہ بیدار کرنے کے لئے آپ نے جگہ جگہ اپنے خطاب کے ذریعہ دین اسلامی کی صحیح عکاسی کی مکہ مسجد گنگا نگر، جامع مسجد کاشف العلوم ہوسہلّی، تبلیغی مرکز سلطان شاہ اولیاء، مسجد یقین شاہ ولی (عقب ودھان سودھا بنگلور) کے ممبر محراب سے اصلاحی خطابات ارشاد فرمائے اور 24سال سے مرکزی جامع مسجد دارالعلوم محمدیہ کے ممبر و محراب سے اصلاحی خطابات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔قریہ قریہ گاؤں گاؤں کا دورہ کیااور مدارس کو وفاقی حیثیت دلانے کے لئے آل انڈیا انجمن مدارس(ALL INDIA ANJUMAN-E-MADARIS(R)) قائم فرمائی۔مزید آپ کے کچھ ایسے کارہائے نمایاں ہیں جن پر ابھی بھی ایک دبیز چادر پڑی ہوئی ہے۔
حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے صحافت کا ذوق اور صلاحیت بھی عطا فرمائی ہے جو بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔ آپ ایک اچھے صاحب قلم بھی ہیں۔ آپ کا اداریہ بڑا شان دار ہوتاہے۔ آپ بہ حیثیت صحافی بھی اپنی مستقل خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔ آپ کے مضامین و مقالات ہندوستان و پاکستان کے نمائندہ اخبارات و رسائل میں برابر شائع ہوتے رہتے ہیں۔ 
 آپ تقریباً ۰۹سے زائد کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں۔ جیسا کہ پہلی سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ آپ کی مشہور شاہکار کتاب خوابوں کی تعبیر اور اس کی حقیقت  جس کے متعدد ایڈیشنس (ADISONS) ہندو پاک میں شائع ہوچکے ہیں۔آپ کی ایک کتاب مفتاح الصلوٰۃ نماز کے موضوع پر بہت اہم کتاب ہے، کئی مدارس و اسکولوں میں داخل نصاب ہے۔اصلاحی حلقوں میں بھی بہت مقبول ہے۔ ان کے علاوہ آپ کے سات سو کے قریب مضامین و مقالات مختلف موضوعات پر ہیں۔جس میں سماجیات ، شخصیات ، دینیات اورطب شامل ہیں۔مزیدآپ نے ۶۹۹۱ء میں نقوشِ ہند  کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جس کے آپ مدیر اعلیٰ رہے۔پھر اس رسالہ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اور لوگوں کے اصرار پر اس کانام ۱۰۰۲ ء میں بدل کرنقوش عالم کردیا گیاجو تب سے آج تک بلا ناغہ ہر ماہ پابندی سے شائع ہو رہا ہے اس کا موضوع طب، مذہب اور ادب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے۔ آپ مسالک سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد کو اہمیت دیتے ہیں اور غیر مسلموں کو اسلام کی حقانیت اور وحدانیت کے ساتھ انسانیت کی بنیاد پر قومی یک جہتی کا سبق دیتے ہیں نیز فنِ طب پر آپ کی تالیفات دُرِّحبّان، بیاض حبان، سمندر کی تہہ سے چند موتی ، صحت اور تندرستی کے راز، عنقریب شائع ہوکر منظر عام پر آنے والی ہیں۔

رہتا ہے قلم سے نام قیامت تلک اے ذوق
اولاد سے تو بس دو پشت یا چار پشت

 آپ کا قومی و ملی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ آپ جہاں دینی و علمی ادارہ آل انڈیا انجمن مدارس (ALL INDIA ANJUMAN-E-MADARIS(R))، دارالعلوم محمدیہ بنگلور، محمدیہ ایجوکیشنل چاری ٹیبل ٹرسٹ رجسٹرڈبنگلور(MOHAMMADIA EDUCATIONAL CHARITABLE TRUST(R)) ، ادارہ ماہنامہ نقوش عالم بنگلور، ڈی یم کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ بنگلور(D.M COMPUTER INSTITUIT BANGALORE) کی سرپرستی و رہنمائی کررہے ہیں تو وہیں دوسری جانب رحیمی شفاخانہ بنگلور و دہلی اور یونیورسل طب یونانی فاؤنڈیشن(UNIVERSOL TIB UNANI FONDITION) نیز دوا سازی میں آر ایس کے ہربل بنگلور(R.S.K. HERBAL BANGALORE) کے پلیٹ فارم (PLATE FORM) سے طبی میدان میں بھی خدمت خلق کا اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
راہ طریقت و سلو ک اور طب و حکمت کا دائرہ اب اس قدر وسیع ہوتا جارہا ہے کہ بندۂ خدا کی رہنمائی و رہبری کے لئے آپ نے باقاعدہ بنگلورسے دہلی و اترپردیش کا مستقل سفر شروع کردیا ہے۔جنوبی ہند سے زیادہ آپ کے مریدین و متوسلین کا دائرہ شمالی ہندوستان ،دہلی ، اترپردیش ،پنجاب کے اطراف و اکناف میں بھی ہے۔ اسی لئے حضرت حبیب الامت قبلہ دامت برکاتہم مہینہ کی کچھ تاریخوں میں دہلی کے ترکمان گیٹ کے علاقہ میں قیام پذیر رہتے ہیں۔ آپ سے وابستہ حضرات کے لئے یہ اہم خوش خبری ہے، جو حضرات استفادہ کرنا چاہتے ہیں وہ آپ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔بحمد اللہ تعالیٰ آپ کے مریدین اور خلفاء و مجازین کرام ہندوستان کے تقریباً ہر صوبہ میں دینی، اصلاحی خدمات میں لگے ہیں۔ آپ کی خانقاہ کے ذارئع کے مطابق ہندو پاک، بنگلہ دیش، مکہ معظمہ، مدینۃ المنورہ، ماریشش، ساؤتھ افریقہ وغیرہ میں بھی بندگانِ خدا کی خدمات میں مصروفِ عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی جملہ خدمات اور سعئ مبارک کو قبول فرمائے، آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!

الحاج عبد الباسط صاحب مرحوم
حاجی عبد الباسط صاحب مرحوم علاقۂ گنگونڈناہلی لائرپالیہ بنگلور کی ایک بااثر شخصیت تھی، ابتداء انہیں کی عمارت میں مدرسہ کرائے پر چل رہا تھا، مرحوم اسکراپ کا کاروبار کیا کرتے تھے، شروع زندگی دنیادارانہ رہی، پولیس سے خوب تعلقات تھے، مگر دارالعلوم محمدیہ کے قیام کے بعد بحمد اللہ تعالیٰ مزاج میں دینی حمیت اور مذہبی ارکان کی پاسداری رچ بس گئی تھی، نماز کے سخت پابند تھے، فسادات کے مواقع پر آپ کی قومی وملی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، خصوصاً بابری مسجد کے فسادات کے دوران دارالعلوم محمدیہ کے اطراف واکناف بسنے والے باشندگان کو پولیس کی ذیادتی کا نشانہ بننے نہ دیا۔ مرکزی جامع مسجد دارالعلوم محمدیہ گنگونڈناہلی بنگلور کی جب اراضی خریدی گئی تو اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ایک ڈیڑھ صف کے بقدر آپ نے عنایت فرمایا۔ آپ دارالعلوم محمدیہ کے عہدۂ صدارت پر تاعمر فائز رہے، اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین!

عالی جناب انور سادات صاحب مرحوم
عالی جناب سید انور سادات مرحوم کی تعلیمی لیاقت اور سمجھ بوجھ دیکھتے ہوئے انہیں سکریٹری کے عہدہ پر فائز کیا گیا تھا، آپ انتہائی نازک طبع اور سادہ طبیعت کے مالک تھے، لوہے کا کاروبار کیا کرتے، دارالعلوم محمدیہ گنگونڈناہلی بنگلور کی ابتدائی تعمیر وترقی میں آپ نے حضرت حبیب الامت مدظلہ العالی کا خوب خوب ساتھ دیا۔ مرکزی جامع مسجد دارالعلوم محمدیہ کی عارضی کچی عمارت کی محراب آپ نے اپنے صرفہ خاص سے تعمیر کروائی، طالبانِ علومِ نبوت کا دل سے اکرام کیا کرتے تھے اور مہمانانِ رسول سے سچی محبت۔ یہاں تک کہ بعض مرتبہ تعلیمی سال کے شروع میں طلباء کی کتابوں، کاپیوں اور ان کے کورسس کو مارکیٹ سے آٹو میں یا پھر اپنے کندھے پر رکھ کر لاتے۔ اپنے رشتہ داروں، اہل خانہ اور اپنے ملازمین پر بے انتہاء فراخ دلی سے خرچ کرنے والے تھے، دارالعلوم محمدیہ گنگونڈناہلی بنگلور کی فلاح وبہبودگی میں آپ نے تاعمر انتھک کوشش کیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اس دینی خدمت کا خوب خوب اجر عطا فرمائے، آمین!

عالی جناب الحاج شیخ نذیر صاحب بیرنگ مرچنٹ 

عالی جناب اے آر رحمن صاحب ایڈوکیٹ 

عالی جناب الحاج سید افضل پاشاہ صاحب ماولی 
عالی جناب الحاج سید افضل پاشاہ صاحب ماولی بنگلور کو محترم جناب انور سادات صاحب مرحوم کے وصال کے بعد ان کی جگہ سکریٹری کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ آپ کے یہاں لوہے کا کاروبار ہے، والد کے انتقال کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم وتربیت، ان کے نکاح اور والدہ کی خدمت کو آپ نے اپنا شعار بنالیا تھا، ماں کی خدمت کی بدولت اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی خوب نوازا ہے، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء اللہ کی محبت کو آپ اپنا سرمایہ تصور کرتے ہیں، حاذق الامت حضرت الشاہ حکیم زکی الدین احمد صاحب پرنامبٹی رحمۃ اللہ علیہ کے خاص مریدین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ دارالعلوم محمدیہ گنگونڈناہلی بنگلور کی جدید عمارت میں آپ نے بہت دلچسپی کا مظاہرہ فرمایا، علمائے کرام، اساتذۂ عظام اور طلبائے عزیز کی دل سے قدر فرماتے ہیں، اکابرین وبزرگانِ دین کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعی اور تڑپ آپ میں اس قدر ہے کہ مجالسِ رحیمی اور دیگر ذکر واذکار کی محفلوں میں شرکت ضروری تصور کرتے ہیں، اہل اللہ کی باتیں سننے کے لئے آپ کے کان ہمہ وقت لگے رہتے ہیں، حضرت حبیب الامت مدظلہ العالی کے مجازِ صحبت ہیں، شریعت اسلامیہ کے سخت پابند ہیں، بحمد اللہ تعالیٰ دارالعلوم محمدیہ گنگونڈناہلی بنگلور آپ کی بہت سی جد وجہد کی بدولت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے، آپ کے کاروبار میں اضافہ فرمائے اور دارالعلوم محمدیہ گنگونڈناہلی بنگلور کو مزید ترقیات سے نوازے، آمین!